Ali-roshank
خاصخیلی ذات کا مکمل تعلق ۔ (تاریخ خاصخیلی) خاصخیلی دراصل پشتون نسل قبیلہ ہے۔ سندھ میں کسی بھی نام کے بعد نام انی لگانے سے اسے اپنی اولاد سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح افغان لوگ اپنے نام کے بعد خیل لگاتے ہیں جو کہ یوسف خیل، یوسف کا بیٹا یعقوب خیل ہے، یعنی یعقوب کا بیٹا، اسی طرح جب خاصی یا یا خاصا کے بعد خیل لگا۔ ، یہ خاصی خیل یا خاصخیلی بن گیا اور خاصی خیل کے بچوں کو خاص خیلی کہا گیا۔جس طرح قائم خان سے قائم خانی بن گیا اسی طرح ترخان سے ترخانی اور خاصی خیل سے خاص خیلی بن گیا۔ اسی طرح خیلی نام کے اور بھی قبائل ہیں جو ابو خیلی ہیں۔ حسن خیلی اور دیگر کو بلایا جاتا ہے۔ دیکھیے پشاور _ ص 129 اور ص 577۔ افغان دنیا کی واحد قوم ہے جو اپنے نام کے ساتھ خیل لگاتی ہے تاہم وہ دیوی کی پوجا نہیں کرتے۔ ہندوستان کی قومیں کو سورج بنسی ۔ چندر بنسی ۔ یادونسی کہتے ہیں اور عرب اقوام بنو قلب، بنو نمل، بنو شمس کے ناموں سے پکارتی ہیں۔ ان کے ناموں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قومیں ان کی پرستش کیا کرتی تھیں، اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ افغان لوگ اپنے قبیلے کی نمائندگی کے لیے خیل یا خیلی پیچھے باندھتے ہیں۔ خاصخیلی قبیلہ یوسف زئی قبیلے سے ہے۔ افغان قوم میں یوسف زئی قبیلہ ایک بہادر اور حکمران قبیلہ رہا ہے۔تاریخ خورشید جہاں۔ اصل فارسی جس کا ترجمہ سراج احمد علوی نے کیا اور اس تاریخ کو پشتون کا نام دیا، لکھتے ہیں کہ جب ملک طالوت اپنے بیٹوں سمیت جنگ میں شہید ہوئے تو اس نے دو حرم حضرت داؤد کے حوالے کیے جو دونوں حاملہ تھے، اور ان میں سے ایک سے یرمیاہ پیدا ہوا۔اور دوسرے سے برخیہ ارمیا سے افغانہ اور برخیہ سے آصف پیدا ہوئے۔ آصف کے بچے تھوڑے اور افغانوں کے بچے بہت ہوگئے۔ پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً چار ہزار سال قبل جب بخت نصر نے کافر افغانوں پر ظلم ڈھایا تو افغان قوم ان مظالم کی گرمی برداشت نہ کر سکی اور دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے لے بیجھا گیا تو قیس اپنے بچوں کے ساتھ آئے اور مسلمان ہو گئے، وہ ملک طالوت کے خاندان سے تھے اور جب دل و جان سے لڑے تو قیس رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ اسے بطن کا خطاب دیا اور پھر اسلام کی تبلیغ کے لیے بادغیس اور افغانستان بھیجا گیا۔ جس نے اسلام کی اشاعت کی وہ آخر کار اپنے باقی بھائی افغان قبائل کے ساتھ ایک حکمران کے طور پر ہندوستان میں داخل ہوا۔عربی اور فارسی کی اصل عبرانی ہے۔ اس کی وجہ سے افغان مختلف خطوں میں رہتے تھے اور مختلف زبانیں بولتے تھے جن میں عبرانی ۔ عربی، فارسی، پشتو وغیرہ بولی جاتی تھی میانوالی کے خاص خیلوں کی زبان سرائیکی ہے۔ موسیٰ خیل عیسیٰ خیل لوگوں کی زبان سرائیکی ہے پر اس پے۔پشتو زبان کا اثر زیادہ ہے۔ بھاولپور۔ حامد پور۔ مبارک پور (صوبہ پنجاب) کی زبان سرائیکی ہے۔ لیکن انہوں نے پنجابی زبان کو زیادہ متاثر کیا ہے۔سندھ میں بہت سے خاصخیلی سندھی اور سرائیکی زبانیں بولتے ہیں اور سوات میں پشتو بولتے ہیں ۔ یہ قبیلہ تاریخی طور پر افغانستان ۔ ایران ۔ عرب اور ہندوستان میں بھی پہایا جاتا ہے۔ لیکن ہر علاقے کے لحاظ سے وہ اس جگہ کی زبان بولتا ہے ۔اس قبیلے نے سرزمین سے وفاداری کا ثبوت دیا ہے جس سے کوئی مورخ انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن بدقسمتی سے اس زمانے کے بعض مورخین نے اس بھادر پٹھان قبیلے کو عجیب ناموں سے پکارا ۔ خود تالپری کے زمانے میں فقیروں خاصخیلی ٬ طاہر خاص خیلی اور دیگر بڑے عہدوں پر فائز تھے اور فوج کے سپہ سالار تھے اور ان کے علاوہ حمید خان خاصخیلی اور سردار سکا خان خاصخیلی بھی بڑے حکمران تھے ۔ خاصخیلی قبیلے کا شجرہ خاصخیل بن اباخیل بن سہیل بن باز زئی کا ذکر کیا۔ اکوزئی بن یوسف زئی اور ملک عبدالرشید بطن جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنے قبیلے سمیت اسلام قبول کیا، یوسف خان کے بعد قیس عبدالرشید خاصخیلی قبیلہ کا وارث سب سے زیادہ ہے۔. (1) پشاور کی تاریخ جو ماسٹر گوپال داس نے لکھی ہے جو بہت بڑی ہے اور آٹھ سو سطروں پر مشتمل ہے۔ (2)ائین اکبری؛ علامہ ابو فضل نے فارسی میں جو لکھا (3) بابر نامہ یا تزک بابری کی تاریخ جو بابر بادشاہ نے خود لکھی، فارسی میں ترجمہ کیا۔ فرانسیسی انگریزی یہ روسی اور اردو زبانوں میں ہے۔ جس میں بابر بادشاہ کا کہنا ہے کہ خاصخیلی پٹھان ایک بہت بہادر اور دلیر قبیلہ ہے۔) 4 یوسف زئی تاریخ جو روشن خان نے لکھی ہے۔ 5_ روشن خان کو یاد رکھیں۔ جس میں تحقیق قطب الدین ایبک۔التمش۔رضیہ سلطانہ۔ سلطان محمود گجراتی اور دوسرے بادشاہوں کا حساب دیا گیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام افغان قبائل خاصخیلی قبیلے کے برادر قبائل ہیں، انہوں نے 300 سال ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ اسی طرح طارق خان جھانی اور مخزن افغانی - فرشتہ پشتون تاریخ خواشی، حافظ رحمت خانی - تاریخ افغان _ تاریخ معصومی - طارق راجپوت - تاریخ طبری وغیرہ۔۔یہ تمام تاریخیں کسی زمانے کے بادشاہ نے لکھی ہیں، یا کسی علم دوست نے لکھی ہیں۔۔آخر میں ڈاکٹر بلوچ صاحب جنہوں نے لغت کے صفحہ 1133 پر خاصخیلی کے غلط معنی لکھے۔پھر۔ جنوری، جون 1992 میں۔لکھا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی کیونکہ میں نے لفظ خاصخیلی کے غلط معنی لکھے۔ جب ڈاکٹر بلوچ کو اپنی غلطی کا احساس ہو تو وہ اسے قابلِ افسوس سمجھیں ۔ یہ خاص طور پر درست ہے کہ افغان قوم ایک حکمران کے طور پر ہند پاک میں داخل ہوئی۔مولائی شیدائی رحیم محمد خان۔ خاص خیل یا خاصی خیل یا خاصی خیل یا خاصی خیل قبیلے کے مطابق جن کے پاس تانبے کی ڈھالیں سونے اور تانبے کے نیزوں سے ڈھکی ہوئی تھیں ان پر سونے سے کام کیا جاتا تھا وہ دنیا کے مختلف حصوں میں رہتے تھے ان کی اپنی تہذیب و ثقافت تھی۔ خاصخیلی قبیلہ ایک بڑا قبیلہ ہے، کیونکہ خاصخیلی قبیلے کے ایسے بہادر کارنامے برصغیر کی مختلف تاریخوں میں وقتاً فوقتاً پڑھے جاتے ہیں۔ وہ ہم سمیت خاص خیل قبیلے پر مختلف مورخین کی لکھی ہوئی تاریخیں پڑھتے دیکھے گئے۔ خاص طور پر خاص خیلی قبیلہ، (افغانوں) نے ہر موقع پر مغلوں کا مقابلہ کیا۔ جس کی ایک مثال حمید خان خاصخیلی ہے۔حصار اور فیروز پور کے حکمران اور ابراہیم لودھی خاصخیلی ہیں۔ پانی پت کی پہلی جنگ 1526 میں ہوئی۔ تالپور نے 782 سے 1844 تک سندھ پر حکومت کی۔ جب کہ خاصخیلی خاندان سے تعلق رکھنے والے حبش خان اور شبرنگ خان ترکھان دور میں نصر پور اور ٹھٹھو کے حکمران تھے۔ دوسرے لفظوں میں خاصخیلی قبیلہ سندھ میں ٹالپروں کے داخلے سے پہلے ایک مہذب اور ترقی پسند یا الفتح قبیلہ تھا۔ سندھ کی تاریخ پر نظر ڈالیں، اعجاز الحق قدوسی _ ڈاکٹر بلوچ اور دیگر کے واقعات) اس قدر کہ جب جوان شہید ہوئے، جب ان کی خواتین بھی لڑتے ہوئے شہید ہوئیں۔ خاصخیل نے برے صخیر پر تین (350) سال حکومت کی۔ اکثر محققین اور علماء کا کہنا ہے کہ یوسف زئی قوم جن میں خاصخیلی قبیلے کے آباؤ اجداد بھی شامل ہیں، شام کے مشرقی اردن کے علاقے میں رہتے تھے۔ یوسف کے پانچ بیٹے مسمیان اکو، موسیٰ، عیسیٰ ملی اور اوریا تھے۔ یوسف کی بیٹی سے مندر کے چار بیٹے مسمیاں مانو، رزار، خضر تھے۔ اور محمود (عرف مامو) تھا۔ ان سب کی اولادیں یوسف زئی کہلاتی ہیں۔یوسفزئی قبیلے کو اتنی حیثیت حاصل ہوئی کہ طاہرخیلی بھی اپنے آباؤ اجداد کے خاندان سے یوسفزئی میں ضم ہو گئے اور خاصخیل قبیلے سے تعلق رکھنے کے بعد خاصخیلی بن گئے۔کیونکہ خاصخیل بھی یوسف زئی کی ایک شاخ ہے۔ خاصخیلی قبیلا ہندوستان، سندھ، افغانستان اور سرحد میں بڑے پیمانے پر پہنا جاتا ہے۔خاص خیل بن اباخیل بن سہیل بن باز زئی بن یوسف زئی بن مندر، جن کی اولاد کو خاصی خیل یا خاص خیلی کہا جاتا ہے۔ نسب نامہ (خاصخیلی۔) خاصخیل بن اباخیل بن سہیل بن باز زئی معروف بائری بن اغوزی بن یوسف زئی بن مندر بن عثمان شیجہ بن خرشبون بن مالک عبدالرشید بطن بن عیز بن سلول بن عتبہ بن مرقع بن نعمان بن ثناء بن ثقلین۔ بہلول بن شلم بن صلاح بن قرور بن عقیم بن فہلو بن کرم بن نہال بن حذیفہ بن لوئی بن کامل بن کریج بن ارجند بن مندول بن سلام بن افغان بن ارمیہ یا پرمیہ بن ساؤل المقاب اسرائیل کے بادشاہ مالک بن علی الثالثی میں بنی اسرائیل۔ بن زر بن انس بن یحرف بن بنیمین بن حضرت اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) ابن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام۔ (تاریخ خورشید جہاں (فارسی) کا اردو میں ترجمہ سراج احمد علوی نے کیا ہے۔ صفحہ نمبر A44، 187، 431، 432، 435 _ تاریخ پشاور _ اے جے ہیسٹنگز، گلوب پبلشر لاہوراور 232 _ تاریخ یوسف زئی ص 399 _ تاریخ حافظ رحمت خانی _ ص 236 تاریخ افغان ص 78) ان تمام تاریخوں میں واضح ہے کہ خاصخیل ایک پٹھان قبیلہ ہے۔ پشاور کی تاریخ کے صفحہ 127 پر خیل کی وضاحت کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی اقوام میں افغان قوم کسی دوسرے نام کی پیروی نہیں کرتی۔ سندھ کے مشہور مورخ مولائی شیدائی رحیم خان بروہی لکھتے ہیں کہ یہ قوم شام سے عرب میں آئی۔ اس کے علاوہ طارق خورشید جہاں پشتون کا اردو میں ترجمہ سراج احمد علوی نے کیا۔ یہ تاریخ سردار شیر محمد خان نے چند صدیاں پہلے فارسی میں لکھی تھی جس میں پٹنہ کا آغاز بتایا گیا ہے۔جس میں خاصخیلی لوگ بھی آتے ہیں۔سردار سکا خاصخیل کا ذکر ہے۔ وہاں پشتونوں کی اصل تاریخ سے مراد یہ ہے کہ خاصخیلی لودھی کے رشتہ دار ہیں جن کا شجرہ نسب اصل 435 صفائی میں خاصخیلیوں کے طور پر دیا گیا ہے۔ تاریخ خواشی تواریخ حافظ رحمت خانی ترجمہ روشن خان اصل تاریخ صفا 632 کے مطابق ابا کا چوتھا بیٹا خاصی ہے جس کی اولاد خاصی خیل یا خاص خیل یا خاص خیلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ افغانوں کی تاریخ نقل کی گئی ہے جو کہ متذکرہ تاریخوں کے بیانات پر مبنی ہے۔اصل صفحات 396 تا 395 پر افغانوں اور یوسف زئی میں خیل کا استعمال کس طرح ہوتا ہے اس کی مختصر وضاحت کی گئی ہے۔یوسفزئی روشن خان کی تاریخ 1996 میں لکھی گئی تھی۔اس نے انکشاف بھی کیا۔ خاصخیلی جو طاھر خیلی کے قریب ہیں ان کا تذکرہ آفتاب ادب حکیم فتح محمد سیوہانی کی کتاب میں کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاصخیل فارس میں بھی تھے۔ جب بخت نصر کافر نے بنی اسرائیل قوموں اور قبائل پر ظلم کیا تو وہ دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئے۔ . جس طرح خاصخیلی فارس میں تھے۔اسی طرح سید گل محمد شاہ رضوی نے شیر میسور کی کتاب کا ترجمہ کیا۔اصل صفحہ 7 پر لکھا ہے ٹیپو سلطان لودھی کے قریب ہے۔تاریخی شواہد کے مطابق خاصخیل بھی لودھی کے قریب ہیں۔ خان جھانی اور مخزن افغانی کی تاریخ - خواجہ نعمت اللہ ہروی کی مرتب کردہ، ڈاکٹر محمد بشیر حسین اردو سائنس بورڈ لاہور نے ترجمہ کیا ہے۔ مغل حکومت کا صدر دفتر برہان پور سے ہے۔ اس صاحب کو اصل صفحہ 116 سے 119 تک اس وحی کے بارے میں بتایا گیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی جس پر ملک عبدالرشید اترے۔ ملک عبد الرشید چند نسلوں کے بعد خاصی خیل یا خاصہ خیل یا خاص خیل یا خاصخیلی قوم کے وارث ہیں۔ اصل فارسی میں لکھی گئی تاریخ کا حوالہ اکبری مصنف علامہ ابو الفضل کی تاریخ صفحہ 961 میں ملتا ہے۔ جو سنگ میل پبلک کیشنز چوک اردو بازار لاہور سے مل سکتا ہے۔ تاریخ بابر نامہ یا تزک بابری کے اصل صفحہ 16 کا ترجمہ کتاب کی اہمیت بتاتا ہے۔ اس کتاب کا ترکی سے فارسی میں ترجمہ اکبر کے حکم سے کیا گیا اور پھر عبدالرحیم خان خانان نے 1590 میں اس کا ترجمہ فرانسیسی مصنف مسٹر پیوٹ ڈی کور نے کیا۔ اردو میں مرزا نصیرالدین گورگانی عرف فانی نے انہیں بابر بادشاہ کی شہزادہ ہمایوں سے جنگ کی تفصیل دی اور بابر بادشاہ نے کہا کہ حمید خان نے خاصخیل پٹھان اور اسکی قوم پٹھان بہت ضدی ہیں، یہ کتاب بکلینڈ بندر روڈ کراچی سے مل سکتی ہے۔ تاریخ فرشتہ تصنیف محمد قاسم فرشتہ، عبدالحق ایم اے نے اردو میں ترجمہ کیا، اس تاریخ کی جلدیں بھی موجود ہیں۔ اس کے پہلے صفحہ پر حامد خان خاصخیل نے اصل 593 کی جنگ کی تفصیل دی ہے۔ حامد خان خاصخیل بابر کے نام 312 ہیں۔ تاریخ شاہی کے صفحہ 96 پر اصل صفحہ 565 پر خاصخیلی لودھی کی قربت دکھائی گئی ہے۔ اصل صفحہ 960 کے مطابق خاصخیلی رجمنٹ دکھائی گئی ہے۔ مصنف شفیع محمد، محمد پیریل، 1958 کے مطابق 1318 عیسوی کی افغان سلطنت کا نقشہ دیا گیا ہے۔ تذکرہ روشن خان کے حوالے سے واضح ہوتا ہے کہ قطب الدین افغان ہے۔ سندھ کی تاریخ اعجازالحق قدوسی حصہ دوم کے مطابق اصل کے صفحہ 111 پر مولانا بھبود کا ذکر ہے اور اسی تاریخ کے صفحہ 158 اور 120 پر شبرنگ خان خاصخیل کا ذکر ہے۔ جب کہ اصل صفحہ 41، نئے صفحہ، صفحہ 14، 27 اور 34 پر اصل میں ٹھٹھہ کے حکمران شبرنگ خان خاصخیلی اور نصر پور پرگنہ کے حکمران حبشاں خان کو دکھایا گیا ہے، جب کہ مولانا بھبود کو حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ سپہ سالار۔کچھ دکھایا گیا ہے جس کی تفصیل تاریخ معصومی میں آتی ہے۔ اس طرح سانگھڑ کی کتاب سے شہیدوں کے نام تلاش کر کے قارئین کے سامنے لائے ہیں۔ اصل صفحہ 91، 92 ہے۔ تاریخ سندھ اعجاز الحق قدوسی جلد تین اصل صفحہ 131 اور بچو بادشاہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ تاریخیں تصاویر اور ثبوتوں کے ساتھ تاریخ انساب عالم میں موجود ہیں۔ سکندر لودی کے 6 بیٹے تھے جن میں ابراہیم اور جلال ایک بیوی سے تھے۔ ... دو بیویاں تھیں جن میں سب سے بڑے توطار کے پانچ بیٹے تھے جن میں ہود بھی شامل تھے جن کی اولاد کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جنہیں خاصہ خیل اور زنگی خیل کہا جاتا ہے،اور تزک بابری میں 1412ع لکھا گیا ہے کہ خاصخیلی لودی قبیلے کے شاھوخیل شاخ کے افراد تھے ۔ خاصی خیل یا خاصخیلی سندھ کے اندر ترخانی دور میں داخل ہوئے تھے اور ارغونوں کا کام تمام کیا تھا ۔ ترخان دور میں موجودہ ٹھٹھہ کا حاکم شبرنگ خان خاصخیلی تھا ۔ اس وقت خاصخیلی قبیلا سندھ سمیت بلوچستان٬ افغانستان ٬ ایران٬ اور عربستان٬ میں پایا جاتا ہے یہ قبیلا سندھ میں خاصخیلی کہلاتا ہے اور خیبرپختونخوا میں خاصی خیل یا خاصہ خیل کے نام سے کہلاتا ہے ۔ اس قبیلے کے موجود ہ سردار راجا بابا خان خاصخیلی ہیں ۔