بحث:ڏيپلو تعلقو

تازو-ترين تبصرو: عنوان ڏيپلو کي عربي ۾ ديبل ئي چيو ويندو آهي - تحقيق ۾ 11 مهينا پهرين پاران عبدالرحمان اوٺو ڏيپلو

ڏيپلو در اصل ديبل ئي آهي ڏپيو صرف ڏند ڪٿا آهي

سنواريو

.  دیپ+ل+و, دیپ سنڌی ۾ دوئیپ سنسڪرت ۾ جزیرہ یعنی ٻیٽ کی چئبو آھی. "وید" ء ویدن جا آخری باب "پُراٹ" آھن جی سنسڪرت ۾ لکیل آھن. جنوب مشرقی ایشاء جی سماجی مذھبی بولی مقدس سنسڪرت آھی.  ویدن بابت اڄ جی دنیا جو عظیم اسڪالر ڊاڪٽر ذاڪر نائیڪ چوی ٿو تہ وید توحید تی مبنی الھامی ڪتاب آھن. جین مت, بدہ مت , ویدن جی تعلیم جو حاضر وقت ۾ بھترین عڪس آھن جن جو بنیاد سندھو گھاٽی جی پٽی ۾ پیو ء پوری جنوب مشرقی تی ڇانئیجی ویو. سنڌ جی جاگرافی " سندھو جی سونت ۾ سورت کان ھمالیہ تائین جی ڌرتی سنڌ آھی" " وید" سنڌ جی  منڊ ۾  ۽  آخری باب "پُراٹ" ڇیڙی ۾ یعنی پُراٹ جی ڪنڌي تی  پُراٹ جی وادی  پاتل دیپ المعروف ڏیپلو ۾ لکیا ویا.  مطلب ته ڏيپلو جي قديم تاريخ آهي

جڏھن ته ڏيپلو شهر جو باني ڏيپي کي لکڻ آسمان کي پٿرن هڻڻ جي برابر آهي ڇو ته اها صرف من گهڙت ڪهاڻي آهي جنهنجو ڪوبه پروف نه آهي

ڪنهن به ڏيپي ميگهواڙ نالي شخص جو هتي ڪو  به  وجود نه آهي تعلقي ڏيپلو جي تاريخ لکندڙ اديب عثمان ميمڻ صاحب اها هڪ ڏند ڪٿا لکي آهي جنهن جو تاريخ ۽ زميني حقائق ۽ سچائي  کان سوين ميل دور آهي

ڏيپلو ۽ ديبل تي تحقيق ڪندڙ  عبدالزاق ميمڻ ڏيپلائي پنهنجي هڪ اردو ڪالم ۾ لکن ٿا ته

لفظ ڈیپلو کی تخلیق نے دیپ، سکا دیپ اور دیبل کی اسمی شناختی قدر سے بتدریج وجود پایا  نیز ڈیپلو زمینی پسمنظر رکھنے والا جگرافیائی نام ہے  جسکی مدلل تفصیل ہماری موجودہ  تصنیف "ڈیپلو تاریخ کے آئینے میں" بیان کی گئی ہے۔ ڈیپل بنام ڈیپلو اپنی جاگرافیائی ہیئت اور زمینی حقائق  کی روشنی میں ایک فطری جاگرافیائی نام ہے جس نے اپنی بنیاد پاتل المعروف دیپ سے حاصل کی اسکاوجود خالصتاً دیپ کے جاگرافیائی نام کا مرکب   ڈیپ+ل ہے، جس سے اس خطے کی قوم کی ریاست کا ثقافتی نام سکادیپ معرض وجود میں آیا، دیبل بھی اس  نام کی حقیقی عربی صورت  ہے

هن مان معلوم ٿئي ٿو ته تاريخي بندت گاه ديبل جي تباه ٿيڻ کان پوء اتان جا ماڻھون لڏ پلاڻ ڪري هتي آباد ٿيا جن پنهنجي ابائي شهر جو پراڻو نالو عربي ديبل ۽سنڌي ۾ ڏيپلو رکيو  د-ڏ  ب- پ ل و


ڇو ته تعلقه ڏيپلو جي ڪنهن به سرڪاري رڪارڊ ۾ ڏيپي مگهواڙ جو نالو نه آهي مختيارڪار واحد ڏنو نهڙي جي وقت ۾ ڏيپي مگهواڙ جي زمين جي جانچ ۽تحقيق لاء شنڪر سوٽھڙ جي نگراني ۾ هڪ ٽيم جوڙي وئي هئي ( شنڪر سوٽھڙ صاحب هن وقت به ڏيپلو ۾ موجود آهي ) انهن جي تحقيق مطابق ڏيپي نالي ڪو به شخص نه آهي

پهرين ڳاله  ته سرڪاري روينيو جو

رڪارڊ  انگريزن ٺاهيو آهي

ان کان اڳ ۾ ڪابه زمين سروي نه هئي  ته پوء ڏيپي ميگهواڙ جي زمين ڪهڙي رڪارڊ تان آئي ?

ٻئي ڳاله ته بقول مشهور ڏند ڪٿا يا ڪهاڻي جي ته  ڏيپي ميگهواڙ جون ست ٻنيون هئيو

جنهن  تي ميرن قلعو ٺاهيو ھو

اهو قلعو اڄ به موجود آهي پر

ڀٽ جي چوٽي ته آهي ڪابه ٻني نه آهي  هي موجوده زميني حقائق آهن  پوء اهي ست ٻنيون آسمان کڻي ويو يا زمين گهي وئي ?

نمبر ٽئي ڳاله ته انگريزن کان   اڳ  ۾ تاريخ  جي اعتبار سان ٿر ۽ راجستان  ۾ راجپوتن جا راجا حڪمران رهيا آهن  انهن جي دور ۾ ميگواڙن ڀيلن ڪولهين  ۽ ٻين مظلوم ذاتين نيچ سمجهيو ويندو هو انهن  کي جائداد ٺاهڻ جي اجازت ئي نه هئي  ته پوء ڏيپي مگهواڙ جي نالي ڪئي ٻنيون  قائم ٿيون ?

  مان ڪو اديب ته نه آهيان  پر تاريخ جو هڪ ننڊڙو شاگرد آهيان    مٿيان سوال  ۽ زميني حقائق  اسان سڀن لاء ڌيان طلب آهن&#32؛عبدالرحمان اوٺو ڏيپلو (ڳالھ) 15:13, 20 ڊسمبر 2023 ( يو.ٽي.سي)ورندي ڏيو

ڏيپلو کي عربي ۾ ديبل ئي چيو ويندو آهي - تحقيق

سنواريو

ڏيپلو جي تاريخ  تي ڪيترن ئي سالن کان تحقيق ڪندڙ اسان جي دوست عبدالرازق ميمڻ  الديبلائي هڪ اردو ۾ ڪتاب لکيو آهي  بنام

"*ڈیپلو تاریخ کے آئینے میں*"

ان ڪتاب جا ڪجھ اهم حصا هيٺ  لکان ٿو

ته جئين اصل حقيقت سڀن جي سامهون اچي

  پاتل المعروف دیپ بعد المعروف ڈیپلو تاریخی ثبوتوں اور زمینی حقائق کی روشنی میں سندہ کا

وہ معرکتہ الآراء خطہ ارض ہے جس کی سر زمین پر انڈس سولائیزیشن کے کم و بیش تمام اہم واقعات جن سے سندہ کی تاریخ کی سمت طئہ ہوتی ہے وقوع پذیر ہوئے۔ سندہ کی تاریخ کااہم دائمی نشان بندرگاہ بابریکانس بعد المعروف دیبل در اصل دو نام  ایک جان پر مبنی وجود ہےجس کا اسمی اور زمینی تعلق بھی اس خطئہ ارض سے ہے

اس بندرگاہ کا بانی سکندر تھا،

یہ بندر گاہ دو اہم واقعات کی نسبت سے تاریخ میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے ،  یہ دونوں واقعات  سنکدر  اعظم کی سند ہ سے  بابل کی طرف روانگی اور غازی محمد بن قاسم  کی آمد سے منسوب ہیں،

اس طرح سندہ کی  یہ  عظیم  بندر گاہ  دو  فاتحین کی آمد و رفت  کا راستہ بنا ۔  سکندر سندہ کی آزادی، وسعت اور تعمیر کا اولین معمار تھا ، سکندر کی عطاء کردہ آزادی، وسعت اور تعمیر  نے سندہ میں بڑی ثقافت بننے کی روح چھونکی  نتیجے میں منقسم سندہ سنہ500ع  میں کُرہ ارض کی ایک بہت بڑی تہذیب بن کر ابھری۔  جبکہ غازی تہذیبی انقلاب کاشہسوار تھا۔ تزحیک اور غلامی سے نجات ثقافتی امارت باب الاسلام سے نوازشات غازی کی مرہونِ منت ہے یہ نصرت غازی کی  آمد و فتح سے نصیب ہوئی۔

باب الاسلام کا عظیم الشان انقلابی معرکہ بھی دیپ کی سرزمین پر سرانجام پایا نتیجتن دیپ کی سر زمین ملعون داہر کا مقتل اور مدفون بنی۔

اس واقع کی نصرت کا اعزازدیبل اور دیپ (بیٹ) کے قو زں کے والیان  کا  نصیب بنا۔  دیبل کے شہواروں کا تعلق اس قوم سے ہے جن کو سالار اسلام نے مومن کا خطاب عطاء کیا،یہ لفظ اگے چل کر " میمن " کا  مؤجدبنا ۔  بیٹ (دیپ) کے قلعے کا والیاں کا تعلق ڈیپلو اور تھر کے معروف قبیلون  سے هي

راوڑ،برہمن دور میں سندہ کا گرمائی دارالخلافہ تھا, کابل اور قندھارسندھ کا حصہ تھے ۔

راوڑ کے جگرافیائی محلِ و قوع کے حوالے سے بیٹ کے قلعی کی زمینی صورتحال مرکزی اہمیت کے حامل تھی، ایسا اظہار غازی نے اپنے خطہ بنام امیر حجاج میں کیا ہے، بحوالہ چچ نامہ( فتح نامہ) صفحہ نمبر 152 ۔  دیبل والوں کی امارت میں والی بیٹ کا غازی سے فرمانبرداری کا معاہدہ  اس معرکے میں اسلامی لشکر کے غلبے کا سبب بنا, یہ خط اُس معاھدہ کا دستاویزی ثبوت ھے کہ دیبل اور بیٹ کے والیان میں تاریخی تعاون اور تعلق تھا,  جس کے نتیجے میں داہر کو شکست ہوئی اور سندہ باب الاسلام کے تاج کی تاجدار بنی۔ راوڑ کی چھانونی برہمن دور میں سندہ کا گرفائی دارخلافہ تھا اس وقت سندہ کی راجشاہی کابل اور قندھار تک پھہلی ہوئی تھی۔

دیپ کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عظیم بندرگاہ دیبل کے ساتھ راوڑ بھی دیپ (ڈیلٹا)  کا  حصہ تھا بحوالہ میجر جنرل بیگ  (انڈس ڈیلٹا کنڑی ص 63-64)۔  یہ حوالہ دو مشہور ِ زمانہ مطبوعات سلسلے وار تاریخ سندہ راقم ڈاکٹر لئمبرک صفحہ 230 اور چچ نامہ (فتح نامہ) صفحہ نمبر 289 نسخہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ میں بھی نقل کیا گیا ہے ۔ لفظ ڈیپلو کی تخلیق نے دیپ، سکا دیپ اور دیبل کی اسمی شناختی قدر سے بتدریج وجود پایا  نیز ڈیپلو زمینی پسمنظر رکھنے والا جگرافیائی نام ہے  جسکی مدلل تفصیل ہماری موجودہ  تصنیف "ڈیپلو تاریخ کے آئینے میں" بیان کی گئی ہے۔ ڈیپل بنام ڈیپلو اپنی جاگرافیائی ہیئت اور زمینی حقائق  کی روشنی میں ایک فطری جاگرافیائی نام ہے جس نے اپنی بنیاد پاتل المعروف دیپ سے حاصل کی اسکاوجود خالصتاً دیپ کے جاگرافیائی نام کا مرکب   ڈیپ+ل ہے، جس سے اس خطے کی قوم کی ریاست کا ثقافتی نام سکادیپ معرض وجود میں آیا، دیبل بھی اس  نام کی حقیقی عربی صورت  ہے۔ اس برملا  تاریخی اور مدلل بحث کے برعکس ہمارے بزرگ محمد عثمان ادیب مرحوم جنہوں نے ڈیپلو کے نام ، قیام اور قوم کے ثقافتی تشخص کے متعلق ایک منفرد اختراع اپنی تحریر" تعلقہ ڈیپلو کی تاریخ" میں رقم  کیا ہے جسکا لُب لباب کچھ اس طرح ہے: مرحوم ادیب صاحب اپنے تضیف تعلقہ ڈیپلو کی تاریخ کے صفحہ نمبر30-31 اور 74 پر رقم تراز ہیں کہ سال 1800ع میں میر ٹھارو خان نے کچھ بُهج  سے آنے والے لیٹروں سے تحفظ کی خاطر مختلف علاقوں میں کچے قلعے تعمیر کروائے  جن میں ایک قلعہ ڈیپو میگھواڑ کے  گاؤں میں بھی تعمیر کروایا جس کی وجہ سے ڈیپو میگھواڑ کی سات آٹھ اعلیٰ درجے کی ذریعی زمینیں اس  قلعےکی ذد میں آکر تباہ ہو گئیں۔  میر صاحب نے معاوضہ دینے کی بات کی تو مدعی نے معاوضہ لینے سے انکار کرتے ہوے عرض کاع کہ وہ  لاولد ہیں گوٹھ پر مدعی کا نام رکھ دیا جائے تاکہ اس کا نسب قائم رہے ، ادیب  صاحب  کے مطابق میر صاحب نے  یہ عرض  قبول  کرلیا ۔

، ادیب  صاحب  کے مطابق میر صاحب نے  یہ عرض  قبول  کرلیا ۔ شہرقائم ہونے کے بعد واپاری (بیوپاری) قوم کے میمن اور لوہانے بنے  لوگ  اس شہر میں بازار بنا کر رہنے  لگے جس کی وجہ سے شہر وسیع ہو کر ڈیپلوکے  نام سے مشہور ہوگیا۔ اس کہانی میں ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ مولف خود لکھتے ہیں ٹالپروں کے زمانے میں زمینی ملکیتوں کی داخلا یا مالکانا حقوق کا کوئی قانون مروج نہیں تھا، یہ قانون 1843ع میں انگریز دور کی ایجاد ہے جنہوں نے تھر کا عارضی طور پر روینیو انتظام کچھ بُهج کی ضلعی انتظامیہ سے منسلک کیا 15 سال بعد تھر پارکر کا یہ حصہ 1858ع میں ضلع حیدرآباد میں شامل کر کے ڈیپلو کو تعلقہ کی حیثیت دیکر سرکاری رکارڈ ڈیپلو منتقل کیا ،اُس وقت اِس  دفتر کو  نموداری رجسٹر کہا جاتا تھا جس کا نگران منشی طیب نھڑی کو مقرر کیا گیاتھا۔ مولف اس تمہید کوآگے بڑھاتے ہوئے صفحہ 76 پر لکھتے ہیں کہ میمن اور لوہانہ قوم کے رہنے اور سرکاری سپاہ کے بیٹھنے سے سلامتی کی صورتحال پیدا ہوئی اس کے علاوہ میٹھے پانی اور چراگاہوں اور عام ضروریات کے   خام مال کی موجودگی کی وجہ سے کمی،  کا بسی اور مزدور لوگ جن میں کپڑے  کی رنگاوت کا کام کرنے والے ہندو مسلمان کھتری۔ ذرگر، عمارتی لکڑی اور تعمیرات کا کام کرنے والے کاریگران کے علاوہ  چمڑے کے ڈبے بنانے والے دبگر، جوتا سازی اور چمڑے کی رنگاوت جسکو "ماٹہ"  کہا جاتا تھا کےمیگھواڑ  کاریگروں کے علاوہ  دوسرے مزدور لوگ بھی بڑی تعداد میں آکر رہنے لگے۔ سماجی کام کاج سے منسلک فقیر لوگ جن میں کلر، لنگھا قوم کے ساتھ منگنہار اور برتن ساز کمبھار بھی بڑ ی تعداد میں منتقل ہوئے۔ غریب قوم میں اکثریت ان کی تھی جو گوٹھوں میں ملکیتوں سے محروم تھے۔  ڈیپلو کے نام اور قیام کی تشریح جس کو ادیب صاحب نے دیپومیگھواڑ کی زمینی ملکیت کے حوالے سے  پیش کیا ہےکو  مدنظر  رکھ کر غیر جانبدار تجزیا کیا جائے تو متذکرہ بالا بحث میں ڈیپو میگھواڑ کے  نام سے منسلک  کوئی حقیقت نظر نہیں آتی مولف خود تحریر کرتے ہیں کہ تھرپارکر کا یہ علاقہ گجرات سے منسلک رہا ہے۔ سال 1924ع تک گجرات کے حالات کے بارے میں ڈاکٹر نبی بخش اپنی مشہور زمانہ ترجماتی تصنیف چچ نامہ (فتح نامہ) کے صفحہ نمبر 283 پر فوربس کے حوالے کے حوالے سے رقم تراز  ہیں جنہوں نے یہ حوالہ ہوڑے والا کی تصنیف سے حاصل کیاتھا کے مطابق گجرات میں سدھ راج جیسنہ کی ایامکار ی میں ہریجن اورڈیڈھ لوگوں کےسماجی حالات بہت بد ترین سطح پر تھے ۔  ڈیڈھوں کے لئے سماجی طور پر لازم تھا  کہ سر کو بنا بَل کے پرانے سوتی کپڑے سے ڈانپ سکتے ہیں، قمر کے ساتھ مرے ہوئے جانور کا سینگ لٹکا کر چلنا لازمی تھا تاکہ لوگ دور سے پہچان کر ان کو ہاتھ نہ لگائیں، ان کی کنواریوں سے اول راجپوتوں کی ہمبستری کا رواج تھا ہندو دھرمی پستک منو شاسترکی روایت کے مطابق ان کوکُتے اور گدھے کے سوا کوئی ملکیت رکھنے کی اجازت نہ تھی، ایسی صورت میں سنہ 1800ع میں ڈیپلو کی موجودہ زمین کی ملکیت کو  ڈیپومیگھواڑ  سے جوڑنا نہ صرف  سماجی تاریخ  کے بر عکس ہے بلکہ یہ خود ڈیپلو  کے تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی پس  منظر پر ایک بہت بڑی  قدغن ہے ۔ محترم ادیب صاحب خود روینیو ڈپارٹمینٹ میں سینیر فیلڈ آفیسر کے  عہدے  سے  رٹائرڈ ملازم تھے ، اپنی تصنیف میں تحریر فرما ہیں کہ ٹالپروں کے زمانے میں زمینی ملکیت کا مالکانہ مروج ہی نہیں تھا، ٹھیک چالیس سال بعد یہ روایت انگریز دور میں رائج ہوئی۔ چالیس نسبتاً ایک قلیل مدت ہے یہ صیغہ سرکاری یا سماجی رکارڈ سے ثابت کرنا مشکل نہ تھا لہذا ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ مولف لکھتے ہیں کہ ڈیپو سات آٹھ بہترین (تلی) زمینوں کا مالک تھا جبکہ تعمیر کی گیا گڈھ یا قلعہ آج بھی موجود ہے جو شہر کے مرکز سے دور  تقریبا  پچاس(50)فٹ اونچے ٹیلے پر تعمیر کیا گیا ہے جس کا جاگرافیہ پانچ ایکڑ کے رقبے سے نسبتاً کم زمین پر قائم ہے جس کی تعمیر نہ ذریعی زمین پر نظر آتی ہے نہی ایسا اندیشا ممکن تھا  کہ تعمیر سے سات آٹھ ذریعی زمینے خراب  ہوں یا   ذد میں آسکیں۔ لہٰذا اس دلیل میں ، زمینی صورت حال کے مطابق اتنا وزن نہی ہے۔    اوپر ذکر کردہ صفحہ 76 پر مولف  تحریر کندہ ہیں کہ میمن اور لوہانہ قوم کے بسنے کے بعد میگھواڑ لوگ اپنے کام اور خام مال کی موجودگی کی وجہ سے یہاں پر آکر آباد ہوئے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ زمین نہ ڈیپو میگھواڑنامی شخسیت  کی میلکیت  تھی نہی ا س زمین کا میگھواڑوں سے  کوئی تعلق ہے۔   ایسی صورتحال میں ایک بڑا سوال ابھر کر  سامنے آتا ہے کہ مولف نے ڈیپلو کے  نام  کے متعلق  اپنی اس تشریح کی روایت کہاں سے حاصل کی؟  مولف کی اس تشریح کو  زمینی ، تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی روایات کو نظر میں رکھ کردیکھا جائے تو   صرف  ایک ہی صورتحال نظر آتی  ہے کے یہ  فروعی اختراع  میگھواڑوں میں اس طرح کے رائج نام

نظر آتی  ہے کے یہ  فروعی اختراع  میگھواڑوں میں اس طرح کے رائج ناموں سے متاثر ہوکر غلط طو ر پر اخذ کیا گیا نتیجا لگتا  ہے ،  کیونکہ ا س تحریر میں کافی اخترا ع اور غیر ضروری مواد موجود ہے جس کا روایتن تاریخ کے مضمون سے تعلق بہت کم نظر آتا ہے۔ اس تسلسل میں صفحہ  75،74 پر دو  اور مختلف تشریحات تحریر ہیں جس میں ادیب صاحب بلکل الگ ترجیحات تحریر فرماتے ہیں جس کے مطابق  دیپ ہندی زبان کا لفظ ہے جو بگڑ کر ڈیپ بنا لفظ "لوء" کی معنی گاؤں ہے اس طرح ڈیپلو وجود میں آیا۔سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے صفحہ 75 پر تیسری تشریح میں ادیب صاحب اظہار مسرت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ دیپ کا مطلب چراغ ہے چراغ کی معنی روشنی ہےاس لحاظ سے   میرا شہر علم کی شمع سے منور تعلیم کا گہواراہ ہے۔ ان تشریحات میں لفظ "دیپ"  کا پس منظر  نہی بتایا جاتا کہ  مکینونے  اُس وقت کن ترجیحات کی بنیاد پر  لفظ "دیپ"  اپنایاتھا ۔ غیر مدلل اختراع لکناک تاریخ  اور ادب میں  دلیل کے بجاء وہم سمجھاجاتا ہے ،  لہٰذا یہ قبولیت کے لائق دلیل نہی۔  ان سب تشریحات سے معلوم ہوتا ہے محترم بزرگ ادیب صاحب اپنی بیان کردہ توجیحات میں کسی پر بھی مکمل راسخ نہ تھے انہوں نے ڈیپلو کے نام کے حوالے سے کثر نفسی سے کام لیتے ہوے چند اختراعی خیالات کا اظہار کیا ہے جس کے ثو ت کے لئے نہ ہوہ خود راسخ تھے نہ کوئی تاریخی یا ثقافتی دلیل پیش کرتے ہیں اس سلسلے میں روینیوں رکارڈ کی خاموشی کا وہ پہلے اظہار کر چکے ہیں ۔   اس بات سے جو افسوس ناک پہلو نکل کر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ چند لوگ جن میں راء سنگ راجپوت یا راء سنگ راٹھوڑ وغیرہ نے اس اختراعی تِنکے سے توانائی حاصل کر کے ڈیپلو کی تاریخ  کو مسخ  کرنے کی رقیق کوشش کی ہے،    اگر اختراع اپنا نا مقورد تھا تو باقی موجود ترجیحات سرے سے ترک کر دینا خیانت اور بددیانتی ہے جو حوالہ مولف پر الزام بن جاتا ہے ایسی حرکت کی تردید کرنا لازم ہے اس وقت حوالہ مولف بقیدِ حیات نہی جس کا فائدہ اتھانے کی کوشش کی گئی ہے، جو ایک نا پسندیدہ قابل مذمت فعل ہے۔  بحالِ دیگر   ادیب صاحب صفحہ 75,74,31,30, اور 76 پر ڈیپلو کے قیام کے بارے میں جو تشریحات پیش کر چکے ہیں ان سب سے اتفاق کرنا مشکل ہے کیونکہ ڈیپلو اپنے پس منظر میں جگرافائی اور تاریخی ورثہ ہے جس کے امین آج بھی زندہ ہیں کچا قلعہ جس کو علاقے کی روایت میں گڈھ بھی کہا جاتا تھا کے قیام کی روایت موضوع سے ہٹ کر  ایک بلکل  الگ بات ہے جس پر ادیب صاحب نے راقم کے روبرو  والد صاحب سے   کچھ  سماجی  روایتوں کے حوالے سے تبادلہء  خیال  کیا تھا ۔ گڈھہ کا قیام  ڈیپلو  کے میمن قبائل اور کیٹی میر کے ٹالپروں  کے بیچ  میں  ایک بہت  بڑے تصاد م کی وجہ  بنا تھا جس  کی  وجہ سے ایک دشنام اصطلاح "مروں" وجودمیں  آئی تھی ۔  اس تصادم  کو  روکنے  میں  ارباب  خاندان  کا بڑا ہاتھ تھا  جنہوں نے  میمن قبائل کے پس منظر اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر  ما  لحا نہ کردار ادا کیا۔   مجاز عقد میں  یہ بھی  قبول  کیا گیا تھا کہ ٹالپر رفقئہ میں  سے کوئی بھی اس گڈھہ  میں قیام نہی کریگا جس پر مکمل  عمل ہوئا۔   اس بحت کا مقصد یہ ہے کہ  میمن قبائل ہمیشہ سے اس خطہ کے باسی تھے آس پاس  میں  رہنے والے باقی لوگوں کو بھی  شہر میں رہنے  ترغیب دی گئی جس کی بنیاد پر قریب کے میمن قبائل کے اعلاوہ چلہار، لس اور محراب  کے دور دراز  علاقوں سے میمن قبائل نقل  مکانی کر کے ڈیپلو  میں  آباد  ہوئے ۔ صفح 85 پر ادیب   صاحب  نے تحریر فرمایا ہے  کہ میمن  قبائل  اصل میں ننگر ٹھٹہ کے  باسی  ہیں  یہ حوالہ  دیوان بھیرو مل  کی تضیف "سندی زبان کی تاریخ " کے  صفح 142 سے نقل کیا گیا ہے جو قعیص ایک غلط حوالہ ہے۔ ٹھٹہ شہر جام   نظام الدین  عرف جام نندوکے دور میں  پندھرویں صدی  کی ایجاد  ہے  مغلوں کے دور میں  تر کی منازل طئہ  کرتے ہوئےعروج حاصل کیا۔ ہم پہلے لکھہ چکے ہیں  کی ریاست سکا دیپ ایک چھوٹی مگر طاقت ور تجارتی ریاست  تھی جس میں  ڈیلٹا کی پیداوار سیپ  اور صدف کے موتبوں اور جواہرات کی بہت  بڑی تجارت تھی،1216ع کے بعد  تبدریخ  دریا کے بہا میں  کٹاو آنا شروع ہوئا ڈیلٹا  کی بتد ریج منقلی کی وجہ سے میمن قبائل  کی دیبل  المعروف  ڈیپل  بمعنی ڈیپلو  سے سلسلے وار نقل  مکانی  تو سھجھ میں  آتی ہے ،  ڈیلٹا کے عشق میں  ٹھٹہ  آخری بڑا مسکن بنا، یہ  بات قبول کرنے لائق ہے باقی میمن  اصل ٹھٹہ کے باسی نہیں  تھے۔  جگرافیہ کے  لحاظ سے ٹھٹہ بھی دیپ کاہی علاقہ ہے ۔ ادیب  صاحب صفحہ 77 پر لوہانہ کنیت کے بارے میں سندہ انسا  ئیکلو  ہیڈکا  حوالہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لوہانا  قوم  ایود ھیا کے راجہ رام چندر  کے بیٹے  "لؤ"  کی اولاد ہیں ، سے  اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ  لو ہانا   لفظ سندہ کے دو معروف حکمران  قبائل لاکھا  اور سماں  کی اسمی شناخت کا ایک مج

ئیکلو  ہیڈکا  حوالہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لوہانا  قوم  ایود ھیا کے راجہ رام چندر  کے بیٹے  "لؤ"  کی اولاد ہیں ، سے  اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ  لو ہانا   لفظ سندہ کے دو معروف حکمران  قبائل لاکھا  اور سماں  کی اسمی شناخت کا ایک مجرب کیمیائی  مرکب اورثقافتی  کنیت ہے، جوبر ہمن دور سے پہلے وجودرکھتی تھی۔  ان قا ئل کی اسی کنیت کے  پسمنظر کی بنیاد  پرموجودہ صوبہ سندھ اور  دریا کو لوہانہ کے نام  سے   یاد کیا جاتا تھا، آج بھی نوابشاہ سے نیچے دریا سندہ  کے خشک پیٹ کو لو ہانا  ڈھورا کہاجاتا ہے بوسالہ چچ نامہ (فتح نامہ) صفح62 مترجم ڈاکٹر نبی بخش بلوچ۔  چٹھی صدی  قبل مسیح کے پارسی دھرمی پستک "بندھش" کی تحریری روایتوں سے لیکر  سکد ر کے ساتھ آنے والے ،  سکدیر کے بعد  پہلی اور دوسری صدی  عسیوی میں  وارد ہونے والے مشہورِ زمانہ یونانی مؤرخین سے لیکر  غازی کی آمد تک  اور  بعد میں آنے والے دسویں  اور  گیارھویں  صدی  کے نامور عرب  تاریخ و جگرافیاء  نویس  بشمول عظیم محقق البرونی   اور زنگی سیلانی ابنِ بطوطہ تک موجود  روایات اور  زمینی  حقائق کی پیش نظر تحریر کی گیںس  حقایات جن کا مکمل عکس  بیسویں صدی کے عظیم تجزیاتی محققین ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، نامور مؤرخ و جگرافیدان ڈاکٹر لئمبرک اور ماہر آبکاری تاریخ انجینئر محمد حسین پنہور صاحب کی بیش بہاء تصانیف کی روشنی میں  تجزیاتی تحققر پر مبنی تصنیف "ڈیپلو تاریخ  کے آئینے میں "  ایک بیش قیمت کیمیائی  نسخہ ہے جو ثقافتی، تہذیبی اور تاریخی لحاظ سے ہر تِشنہ پہلو کی پیاس کا مجرب تریاق ہے ۔امید کرتا ہوں  اس نادر نسخے کے بعد تاریخ ِسندھ  کی تجزیاتی تحریر جو عنقریب  منظر عام پر نمودار ہوگی جس کےلیئے  آپ کی توجہ  چاہوں گا۔&#32؛عبدالرحمان اوٺو ڏيپلو (ڳالھ) 15:35, 20 ڊسمبر 2023 ( يو.ٽي.سي)ورندي ڏيو

صفحي "ڏيپلو تعلقو" ڏانھن واپس ٿيو.